🖌۔۔۔۔ 🏬 سوسائٹی 🏢
اگر ایک جگہ کچھ لڑکیاں بیٹھی ہوں اور کسی کا بھائی وہاں سے گزرے تو اگر کوئی لڑکی اچانک بول اٹھتی ہے
’’شازیہ! تمہارا بھائی کتنا ہینڈ سم ہے۔ یہ تو ایک دم ہیرو ہے‘‘۔*
لیکن اگر ایک جگہ کچھ لڑکے بیٹھے ہوں اور کسی کی بہن وہاں سے گذرے تو کیا کوئی لڑکا ایسا جملہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟؟؟
نہیں کر سکتا نا!
اس لیے کہ سوسائٹی نے طے کردیا ہے کہ ایسے جملے صرف لڑکیاں کہہ سکیں گی، لڑکے نہیں۔۔
میں بھی یہی کہنا چاہتا ہوں کہ
ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی
مذہب سے کہیں زیادہ طاقتور سوسائٹی ہوچکی ہے۔
دوسری شادی کرنا کوئی جرم نہیں، لیکن بیوی جتنی مرضی مذہبی ہو، وہ ہر گز ہرگز اِس چیز کو تسلیم نہیں کرتی اور سوتن کے نام پر خونخوار ہوجاتی ہے۔
اسی طرح مذہب میں شادی کے لیے بالغ مرد و عورت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں، 90 سال کا بابا 20 سال کی لڑکی سے شادی کرسکتاہے۔ اور 80 سال کی مائی کسی 25 سالہ جوان لڑکے سے شادی کر سکتی ہے، لیکن دیکھ لیجئے، ایسا جب بھی ہوتاہے
سوسائٹی میں طنز کے تیر چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ مذہب میں ’’بے جوڑ شادی‘‘ کا کوئی تصور نہیں۔
اگر عورت اور مرد بالغ ہیں تو پھر دونوں کی عمروں میں 100 سال کا فرق ہی کیوں نہ ہو، وہ شادی کر سکتے ہیں۔
ہماری سوسائٹی میں تو لوگ جوان اولاد کے ہوتے ہوئے مزید اولاد پیدا کرنے سے بھی شرماتے ہیں کیونکہ سوسائٹی اسے اچھا نہیں سمجھتی۔
مستحق کا زکوۃ لینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا صاحبِ حیثیت کا زکوۃ ادا کرنا، لیکن دیکھ لیجئے، زکواۃ لینا گالی بن گیا ہے
مجبور سے مجبور شریف آدمی بھی ادھارلینا گوارا کر لیتا ہے زکوۃ نہیں لیتا۔
حالانکہ ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی جو شخص زکوۃ نہیں لیتا
وہ بھی ایک طرح سے گنہگار ہی ٹھہرتا ہے، کیونکہ اگر وہ زکوۃ نہیں لے گا تو کوئی دوسرا غیر مستحق یہ رقم لے اڑے گا۔
اصل میں سوسائٹی اپنے آپ میں بڑی ظالم چیز ہے۔
یہ معاشرتی معاملات کو دیکھتے ہوئے اپنے ضابطے خود طے کرلیتی ہے، یہ مذہب کو مانتی تو ہے۔
لیکن صرف عبادات کی حد تک، عملی معاملات میں یہ صرف اپنے اصولوں کو ترجیح دیتی ہے۔
پسند کی شادی مذہب میں کوئی جرم نہیں، لیکن ہماری سوسائٹی میں یہ اب بھی کسی حد تک ناپسندیدہ چیز ہی سمجھی جاتی ہے۔
مذہب کہتا ہے کہ بچے بالغ ہوجائیں تو جلد سے جلد ان کی شادی کردو۔
📌 لیکن سوسائٹی کہتی ہے کہ صرف بالغ نہیں‘ بلکہ جب اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں تب کرو چاہے جب تک 35 سال تک ہی کیوں نہ پہنچ جائیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت کم ایسے لڑکے لڑکیاں ہیں جو 18 سال کی عمر کو پہنچتے ہی شادی شدہ ہوجاتے ہیں۔
مذہب کہتا ہے کہ اولاد کو حرام کے لقمے سے بچاؤ
📌سوسائٹی کہتی ہے کہ نہیں اولاد کے لیے جوکچھ ہوسکتا ہے کر گذرو۔
مذہب ذات برادری کو محض پہچان کا ذریعہ قرار دیتا ہے‘
لیکن سوسائٹی اِسے باعثِ فخر قرار دیتی ہے۔
کبھی غور کیجئے گا‘
سوسائٹی کے اصول کوئی نہیں بناتا‘
یہ اپنا آئین خود تحریر کرتی ہے
اور لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں
سوسائٹی نے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی ڈال دی ھے کہ مذھب کے بغیر رھا جاسکتا ھے لیکن سوسائٹی کے بغیر نہیں
لیکن لوگ یہ بھول گئے ھیں کہ سوسائٹی کے بنا رھا جاسکتا ھے مذہب کے بغیر نہیں، لیکن فی زمانہ ھم مذھب کو اپنی مرضی سے چلانا چاھتے ھیں اور سوسائٹی سے رشتہ توڑنے کو تیار نہیں۔
مذھب میں اپنی طرف سے پیدا کی گئی مرضی اور سوسائٹی کے اسی دوغلے معیار نے ہمارے قول و فعل میں عجیب سا تضاد بھر دیا ہے۔
دین و دنیا کو اپنی چالاکی سے آرام کرتے کرتے ہم عجیب سی مخلوق بن گئے ہیں۔
#منقول
Comments
Post a Comment
آپ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ ایسا کوئی برا کمنٹس نہ کریں جس سے لوگوں یا مسلمانوں کو تکلیف ہو شکریہ
We ask all your friends not to make any bad comments that will hurt people or Muslims. Thank you