🖋۔مذہب سے کہیں ذیادہ طاقتور سوسائٹی ہو چکی ہے،
دوسری شادی کرنا کوئی جرم نہیں۔
لیکن بیوی جتنی مرضی مذہبی ہو
وہ ہرگز ہرگز اس چیز کو تسلیم نہیں کرتی
اور سوتن کے نام پر خونخوار ہو جاتی ہے
اسی طرح مذہب میں شادی کے لیئے بالغ مرد و عورت کے لیئے عمر کی کوئی قید نہیں۔
90 سال کا بابا 20 سال کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے
اور 80 سال کی مائی کسی 25 سالہ لڑکے سے شادی کر سکتی ہے،
لیکن دیکھ لیجیئے
ایسا جب بھی ہوتا ہے
سوسائٹی میں طنز کے تیر چلنا شروع ہو جاتے ہیں
حالانکہ مذہب میں "بےجوڑ شادی" کا کوئی تصور نہیں
اگر عورت اور مرد بالغ ہیں تو پھر دونوں کی عمروں میں 100 سال کا فرق ہی کیوں نہ ہو
وہ شادی کر سکتے ہیں
ہماری سوسائٹی میں تو لوگ جوان اولاد کے ہوتے ہوئے مزید اولاد پیدا کرنے سے بھی شرماتے ہیں
کیونکہ سوسائٹی اسے اچھا نہیں سمجھتی
مستحق کا زکواة لینا اتنا ہی ضروری ہے
جتنا صاحب حیثیت کا زکواة ادا کرنا۔
لیکن دیکھ لیجیئے
زکواة لینا گالی بن گیا ہے
مجبور سے مجبور شریف آدمی بھی ادھار لینا گوارا کر لیتا ہے
زکواة نہیں لیتا۔
حالانکہ ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی جو زکواة نہیں لیتا
وہ بھی ایک طرح سے گنہگار ہی ٹھہرتا ہے
کیونکہ وہ اگر زکواة نہیں لے گا
تو کوئی دوسرا غیر مستحق وہ رقم لے اُڑے گا
اصل میں سوسائٹی اپنے آپ میں بڑی ظالم چیز ہے۔
یہ معاشرتی معاملات کو دیکھتے ہوئے اپنے ضابطے خود طے کر لیتی ہے،
یہ مذہب کو مانتی تو ہے
لیکن صرف عبادات کی حد تک
عملی معاملات میں یہ صرف اپنے اصولوں کو ترجیح دیتی ہے،
پسند کی شادی مذہب میں کوئی جرم نہیں
لیکن ہماری سوسائٹی میں یہ اب بھی کسی حد تک ناپسندیدہ چیز ہی سمجھی جاتی ہے،
مذہب کہتا ہے کہ بچے بالغ ہو جائیں تو جلد سے جلد انکی شادی کر دو۔
لیکن سوسائٹی کہتی ہے کہ صرف بالغ نہیں، بلکہ جب اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں تب کرو۔ چاہے تب تک 35 سال تک ہی کیوں نہ پہنچ جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت کم ایسے لڑکے لڑکیاں ہیں جو 18 سال کی عمر کو پہنچتے ہی شادی شدہ ہو جاتے ہیں،
مذہب کہتا ہے کہ اولاد کو حرام کے لقمے سے بچاؤ
سوسائٹی کہتی ہے کہ نہیں، اولاد کے لیئے جو کچھ ہو سکتا ہے کر گزرو۔
مذہب ذات برادری کو محض پہچان کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
لیکن سوسائٹی اسے باعث فخر قرار دیتی ہے،
کبھی غور کیجیئے گا"
سوسائٹی کے اصول کوئی نہیں بناتا'
یہ اپنا آئین خود تحریر کرتی ہے
اور لوگ نا چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں،
سوسائٹی نے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی ڈال دی ہے کہ مذہب کے بغیر رہا جا سکتا ہے لیکن سوسائٹی کے بغیر نہیں،
لیکن لوگ یہ بات بھول گئے ہیں کہ سوسائٹی کے بنا رہا جا سکتا ہے مذہب کے بغیر نہیں۔
لیکن فی زمانہ ہم مذہب کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں اور سوسائٹی سے رشتہ توڑنے کو تیار نہیں
مذہب میں اپنی طرف سے پیدا کی گئی مرضی اور سوسائٹی کے اسی دوغلے معیار نے ہمارے قول و فعل میں عجیب سا تضاد بھر دیا ہے،
دین و دنیا کو اپنی چالاکی سے رام کرتے کرتے ہم عجیب سی مخلوق بن گئے ہیں...
اللہ سمجھ عطاء فرمائے
🌷پوسٹ اچھی لگے تو عمل
کریں اور دوسروں کو بھی عمل کرنے
کی دعوت دیں🥀
MashAllah jazakAll
ReplyDeleteMashAllah JazakAllah
ReplyDeleteBahut khoob
ReplyDelete