♤♧کچھ اچھی باتیں♧♤:
💰 دولت کے بغیر عزت نہیں؛ مگر - -!!
مال و زر کی محبت اور ہوس انسان کو فرعون و شداد کی فہرست میں کھڑا کردیتی ہے؛ کیونکہ مال و دولت کی خاصیت دیکھی گئی ہے کہ یہ اپنے صاحب میں تکبر، گھمنڈ اور غرور کا بیج بو دیتی ہے، جو اسی سے دولت سے سیراب ہو کر تناور درخت بنتا ہے، رفتہ رفتہ وہ اس کا شیدائی، فدائی اور جاں نثار بن ہو جاتا ہے، دنیا اس کے سامنے خوبصورت دیوی اور وہ اس کا اپنے آپ کو مالک سمجھنے لگنے لگتا ہے، دبے پاؤں پھر فرعونیت اپنے پنجے گاڑ لیتی ہے، چنانچہ وہ انسان ہو کر بھی مافوق الفطرت کا ایک ایسا حیوان بن جاتا ہے جس کے سامنے انسانی زندگی کی تمام سانسیں رائیگاں، بے کار اور بے مراد ہوتی ہوجاتی ہیں، روپئے، پیسے کا حریص خود پسندی میں ڈوبا ہوا ایک ایسا شخص بن جاتا ہے جو ابن الوقتي کا تمغہ پالے، خود کے سامنے سبھی کو روند دے، عزتیں اچھال دے، طعنے کسے، فقر کا مزاق بنائے، کمتر کو کمتر بنا کر رسوا کرائے، غریب کا ہی خون چوس کر اس کی رگیں کھینچ کر اپنا پیٹ بھرے، عیش و عشرت اور لگزری زندگی کا انتظام کرے، قدم قدم پر عوام کو یہ باور کروائے کہ وہ سبھوں کا مالک ہے اور بقیہ سبھی اس کے غلام ہیں، مگر حیرت کی بات ہے کہ ان سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ سماج میں اسی کو برتر سمجھا جاتا ہے، اسی کی فوقیت تسلیم کی جاتی ہے، اور اپنا سر جھکا کر اس کے سامنے تسلیم پیش کرنے کو ہنرمندی، وقار اور عزت سمجھا جاتا ہے، اسی کے نام پر قصیدے کہے جاتے ہیں، اسی کو توجہ دی جاتی ہے، اس کی رائے چلتی ہے، اس کا مشورہ وزن دار ہوتا ہے، اس کی بات قابل اطمینان ہوتی ہے، اس کا کہنا قول فیصل ہوتا ہے، شادی کے رشتے، گھر بار کے تمام معاملات میں اس کی الگ ہی پہچان ہوتی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس نسل کا ہے، کس طبقہ کا ہے، کس تعلیمی ادارے کا فارغ ہے، کسی صلاحیت کا مالک ہے یا نہیں ہے؟ اس کے برعکس کوئی شریف شخص اپنی شرافت و عزت اور نیک اعمال و نیک جہات کے باوجود اگر دولت کی کھنک اور سونے کی چمک سے دور ہے تو یقین جانیں وہ کچھ نہیں ہے، وہ سب کچھ ہو کر بھی قابل تَرس مانا جاتا ہے، بعض طبعی شرافت پر اگر خموشی بَرت بھی لیں تب بھی مرکزی رہنمائی اور معاملہ فہمی میں انہیں ملوث نہیں کیا جاتا، اسے سماج گری نظری سے دیکھتا ہے، معاشرت میں اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس کی بات خواہ کتنی ہی قابلیت رکھتی ہو؛ لیکن کوئی شنوائی نہ ہوگی، بسااوقات ایسوں کا مزاق بنایا جاتا ہے، مضحکہ خیز تبصرے کئے جاتے ہیں، عزت و ناموس اچھال کر بے حیثیت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ویسے اس زمرے کو صرف سماج تک کیوں محدود کیا جائے؟ اس طوفان بدتمیزی میں پوری سما جاتی ہے، حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ اس کی زد پر آجاتا ہے، کہنے والے جو کہیں مگر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا -
واقعہ تو یہ ہے کہ خود گھر کے افراد اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے، اس کی کوئی بات نہیں سنی جاتی، اس سے کوئی مشورہ نہیں کیا جاتا؛ بلکہ اسے اس لائق سمجھا ہی نہیں جاتا، اس پر دھونس جمانے کی کوشش ہوتی ہے، اسے اجنبیت کا شکار بنایا جاتا ہے، اپنوں میں رہ کر بھی اسے پرائے پن کا احساس دلوایا جاتا ہے، اسے یہ بتلایا جاتا ہے کہ دولت کی کھیتی ہی سبز و شادابی لاتی ہے، اس کے علاوہ تمام فصلیں سوکھی ہیں، بنجر ہیں، جن پر کوئی بہار نہیں آسکتی، ان کا پت جھڑ سے تعلق ہے، وہ باد صبا کے لائق نہیں ہیں، بلکہ باد صر صر ہی ان کا مقدر ہے، ہمارے سماج کی یہ سخت ترین کڑوی حقیقت ہے کہ ہم بھلے ہی اخلاق کی باتیں کریں، اچھے انسان اور بہتر کیریکٹر کی بات کریں، زمانے سے مطالبہ کریں کہ دنیا میں عمدہ انسان ہوں، مادیت سے دور اور روحانیت کے علمبردار ہوں، اخلاقی گرواٹ میں کمی آئے اور اعلی اقدار والے سماج کے بہی خواہ بنیں؛ لیکن یہ باتیں خام خیالی ہیں، اہمیت اسی کو دیتے ہیں جو دولت و زر کے بوجھ سے بھرپور ہے، جس کے پاس خزانہ ہو جو قارون کو مات دیتا ہو، جو کسی کے سامنے بھی دولت کی ریل پیل کردیتا ہو، سماج کے سامنے ہر ضرورت کے وقت پیسے سے بات کرتا ہو، ذرا آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں! بلاشبہ آپ دیکھیں گے کہ ایسے ہی لوگ سماجی گروہوں پر فوقیت رکھتے ہیں؛ انہیں کا سکہ چلتا ہے، وہ اگرچہ کھوٹا ہی کیوں نہ ہو مگر وہی رائج الوقت ہوتے ہیں؛ حتی کہ شادی بیاہ بھی انہیں کے ساتھ خاص ہوچکے ہیں، اپنوں میں ان کی ساکھ زبردست ہوتی ہے، اس میں اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دولت کس گلی سے آئی ہے، کن ذرائع سے آئی ہے، حرام و حلال کا کوئی امتیاز اب نہیں رہ گیا ہے، اس کے برعکس دولت کا انبار کبھی کبھی لوگوں کی نگاہ میں حرام. کو بھی حلال کردیتا ہے؛ دراصل صحیح بات یہ ہے کہ مال کی روشنے تلے یر عیب چھپ جاتا ہے، یہ ہر گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے،
مذہبی کتابوں میں منقول ہے کہ کس طرح یہودیوں نے دولت کی بنیاد پر دنیا کو اپنی انگلی پر نچا رکھا تھا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، انہوں نے دین میں تحریف سے کام لیا، جنت کے قطعے تقسیم کئے؛ اس کے باوجود انہیں کا تسلط پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے،
مسلمانوں کو یہ تعلیم ہے کہ وہ دولت کو بقدر ضرورت اہمیت دیں، اسے سینے میں نہ بٹھائیں، اور ظاہری اخلاق و کردار کو اہمیت دیں، اللہ تعالی نے اپنے نزدیک قربت کی علامت تقوی کو قرار دیا ہے، یہ دلی کیفیت ہے؛ لیکن اس کا عکس جب انسان کے کردار میں چھلکتا ہے تو وہ حقیقی انسان بنتا ہے، وہ پائیندہ و تابندہ ہوتا ہے، خدا تعالی کو وہ محبوب ہوتا ہے، اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے؛ خواہی سماج اسے کسی بھی نظر سے دیکھے اور اس کے کیسا بھی معاملہ کرے، اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ دولت کو سب کچھ مان کر اخلاقی بلندی اور رب کی برتری بھول جائے، ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرے اور اپنے کوئی غیر اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے.✍🏻

Comments
Post a Comment
آپ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ ایسا کوئی برا کمنٹس نہ کریں جس سے لوگوں یا مسلمانوں کو تکلیف ہو شکریہ
We ask all your friends not to make any bad comments that will hurt people or Muslims. Thank you