Skip to main content
♤♧کچھ اچھی باتیں♧♤:

بیوی ہو تو ایسی __!! 


ایک بادشاہ محل کی چھت پر ٹہلنے چلا گیا۔ ٹہلتے ٹہلتے اسکی نظر محل کے نزدیک گھر کی چھت پر پڑی جس پر ایک بہت خوبصورت عورت کپڑے سوکھا رہی تھی۔ 

بادشاہ نے اپنی ایک باندی کو بلا کر پوچھا: 

کس کی بیوی ہے یہ؟

باندی نے کہا: بادشاہ سلامت یہ آپ کے غلام فیروز کی بیوی ہے۔

بادشاہ نیچے اترا ، بادشاہ پر اس عورت کے حسن وجمال کا سحر سا چھا گیا تھا۔

اس نے فیروز کو بلایا۔ 

فیروز حاضر ہوا تو بادشاہ نے کہا : فیروز ہمارا ایک کام ہے۔ ہمارا یہ خط فلاں ملک کے بادشاہ کو دے آؤ اور اسکا جواب بھی ان سے لے آنا۔ 

فیروز: اس خط کو لے کر گھر واپس آ گیا خط کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا، سفر کا سامان تیار کیا، رات گھر میں گزاری اور صبح منزل مقصود پر روانہ ہوگیا اس بات سے لاعلم کہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کیا چال چلی ہے۔

ادھر فیروز جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہوا بادشاہ چپکے سے فیروز کے گھر پہنچا اور آہستہ سے فیروز کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

فیروز کی بیوی نےپوچھا کون ہے؟

بادشاہ نے کہا: میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔ 

تو اس نے دروازہ کھولا۔ بادشاہ اندر آ کر بیٹھ گیا۔

فیروز کی بیوی نے حیران ہو کر کہا: آج بادشاہ سلامت یہاں ہمارے غریب خانے میں۔

بادشاہ نے کہا : میں یہاں مہمان بن کر آیا ہوں۔

فیروز کی بیوی نے بادشاہ کا مطلب سمجھ کر کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں آپکے اس طرح آنے سے جس میں مجھے کوئی خیر نظر نہیں آ رہی۔ 

بادشاہ نے غصے میں کہا: اے لڑکی کیا کہہ رہی ہو تم ؟ شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔

فیروز کی بیوی نے کہا: بادشاہ سلامت میں جانتی ہوں کہ آپ ہی بادشاہ ہیں لیکن بزرگ کہہ گئے ہیں۔

شیر کو اگرچہ جتنی بھی تیز بھوک لگی ہو لیکن وہ مردار تو نہیں کھانا شروع کر دیتا

اور کہا: بادشاہ سلامت تم اس کٹورے میں پانی پینے آ گئے ہو جس میں تمہارے کتے نے پانی پیا ہے۔

بادشاہ اس عورت کی باتوں سے بڑا شرمسار ہوا اور اسکو چھوڑ کر واپس چلا گیا لیکن اپنے چپل وہیں پر بھول گیا ۔

یہ سب تو بادشاہ کی طرف سے ہوا۔

اب فیروز کو آدھے راستے میں یاد آیا کہ جو خط بادشاہ نے اسے دیا تھا وہ تو گھر پر ہی چھوڑ آیا ہے اس نے گھوڑے کو تیزی سے واپس موڑا اور اپنے گھر کی طرف لپکا۔ فیروز اپنے گھر پہنچا تو تکیے کے نیچے سے خط نکالتے وقت اسکی نظر پلنگ کے نیچے پڑے بادشاہ کے نعال (چپل) پر پڑی جو وہ جلدی میں بھول گیا تھا۔ 

فیروز کا سر چکرا کر رہے گیا اور وہ سمجھ گیا کہ بادشاہ نے اس کو سفر پر صرف اس لیئے بھیجا تاکہ وہ اپنا مطلب پورا کر سکے۔ فیروز کسی کو کچھ بتائے بغیر چپ چاپ گھر سے نکلا۔ خط لے کر وہ چل پڑا اور کام ختم کرنے کے بعد بادشاہ کے پاس واپس آیا تو بادشاہ نے انعام کے طور پر اسے سو ١٠٠ دینار دیئے۔ فیروز دینار لے کر بازار گیا اور عورتوں کے استعمال کے قیمتی کپڑے اور کچھ تحائف بھی خرید دئیے۔ گھر پہنچ کر بیوی کو سلام کیا اور کہا چلو تمہارے میکے چلتے ہیں۔ 

بیوی نے پوچھا: یہ کیا ہے؟

کہا: بادشاہ نے انعام دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ پہن کر اپنے گھر والوں کو بھی دکھاؤ۔

بیوی : جیسے آپ چاہئیں، بیوی تیار ہوئی اور اپنے والدین کے گھر اپنے شوہر کے ساتھ روانہ ہوئی داماد اور بیٹی اور انکے لائے گئے تحائف کو دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ 

فیروز بیوی کو چھوڑ کر واپس آ گیا اور ایک مہینہ گزرنے کے باوجود نہ بیوی کا پوچھا اور نہ اسکو واپس بلایا۔

پھر کچھ دن بعد اسکے سالے اس سے ملنے آئے اور اس سے پوچھا: فیروز آپ ہمیں ہماری بہن سے غصے اور ناراضگی کی وجہ بتائیں یا پھر ہم آپکو قاضی کے سامنے پیش کریں گئے۔

تو اس نے کہا: اگر تم چاہو تو کر لو لیکن میرے ذمے اسکا ایسا کوئی حق باقی نہیں جو میں نے ادا نہ کیا ہو۔

وہ لوگ اپنا کیس قاضی کے پاس لے گئے تو قاضی نے فیروز کو بلایا۔

قاضی اس وقت بادشاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لڑکی کے بھائیوں نے کہا: اللّٰه بادشاہ سلامت اور قاضی القضاہ کو قائم و دائم رکھے۔ قاضی صاحب ہم نے ایک سر سبز باغ، درخت پھلوں سے بھرے ہوئے اور ساتھ میں میٹھے پانی کا کنواں اس شخص کے حوالے میں دیا۔ تو اس شخص نے ہمارا باغ اجاڑ دیا سارے پھل کھا لیئے، درخت کاٹ لئیے اور کنویں کو خراب کر کے بند کردیا۔ 

قاضی فیروز کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ہاں تو لڑکے تم کیا کہتے ہو اس بارے میں؟

فیروز نے کہا: قاضی صاحب جو باغ مجھے دیا گیا تھا وہ اس سے بہتر حالت میں نے انہیں واپس کیا ہے۔


قاضی نے پوچھا: کیا اس نے باغ تمھارے حوالے ویسی ہی حالت واپس کیا ہے جیسے پہلے تھا؟

انہوں نے کہا : ہاں ویسے ہی حالت میں واپس کیا ہے لیکن ہم اس سے باغ واپس کرنے کی وجہ پوچھنا چاہتے ہیں۔

قاضی: ہاں فیروز تم کیا کہنا چاہتے ہو اس بارے؟

فیروز نے کہا: قاضی صاحب میں باغ کسی بغض یا نفرت کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ اسلیئے چھوڑا کہ ایک دن میں باغ میں آیا تو اس میں، میں نے شیر کے پنجوں کے نشان دیکھے تو مجھے خوف ہوا کہ شیر مجھے کھا جائے گا،


اس لئے شیر کے اکرام کی وجہ سے میں نے باغ میں جانا بند کردیا۔

بادشاہ جو ٹیک لگائے یہ سب کچھ سن رہا تھا، اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا۔ فیروز اپنے باغ کی طرف امن اور مطمئن ہو کر جاؤ۔ واللہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر تمھارے باغ آیا تھا لیکن وہ وہاں پر نہ تو کوئی اثر چھوڑ سکا ، نہ کوئی پتا توڑ سکا اور نہ ہی کوئی پھل کھا سکا وہ وہاں پر تھوڑی دیر رہا اور مایوس ہو کر لوٹ گیا اور خدا کی قسم میں نے کبھی تمھارے جیسے باغ کے گرد لگے مظبوط دیواریں نہیں دیکھیں۔

تو فیروز اپنے گھر لوٹ آیا اور اپنی بیوی کو بھی واپس لے لیا۔ نہ تو قاضی کو پتہ چلا اور نہ ہی کسی اور کو کہ ماجرا کیا تھا!!!

کیا خوب بہتر ہے اپنے اہل وعیال کے راز چھپانا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے

اپنے گھروں کے بھید کسی پر ظاہر نہ ہونے دو۔

اللہ آپ لوگوں کو خوشیوں سے بھر دے آپکو، آپ کے اہل وعیال کو اور آپکے مال کو اپنے حفظ و امان میں رکھے. آمین۔ اور ہاں سوچنا لازمی، شکریہ دعاؤں میں یاد رکھنا.

Comments

Popular posts from this blog

 ⭕ ایک ایسی تحریر جو بار بار پڑھنے کی ہے __!!* ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﯾﮧ ﺍﻋﻼﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺟﻮ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻓﻼﮞ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮐﮫ ﺩﮮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﮯ ۔ ﺍﺱ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﻮ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﺐ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﺩﻥ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ۔  (1 ) ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﺗﮭﺎ ، ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﺗﻨﮓ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﯾﺎ ۔  (2 ) ﺍﯾﮏ ﮐﻨﻮﺍﺭﮦ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺩﮬﻮﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﮔﯿﺎ (3 ) ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﮔﯿﺎ  (4 ) ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﻭﻻﺩ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﮔﯿﺎ (5 ) ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﭨﯽ ﺑﯽ ﮐﺎ ﻣﺮﯾﺾ ﺗﮭﺎ ۔ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﮐﮭﺎﻧﺴﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﭨﯽ ﺑﯽ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮔﺮ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ۔ (6 ) ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺟﻮ ﺷﻮﮔﺮ ﮐﺎ ﻣﺮﯾﺾ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﻮﮔﺮ ﺭﮐﮫ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﯽ ﺑﯽ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮ ﺡ ﺳﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﺌﮯ ۔   اگلے دن ......! (1 ) ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﺟﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎ، ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﮑﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﺑﭽﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ (2 ) ﺟﻮ ﻏﯿﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﺗﮭﺎ ﺑﯿﻮﯼ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﺳﺎﻣﺎ...
 💕رمضان المبارک کا معمول آپ بھی ملاحظہ فرمائیں 1: روزانہ رات 10 بجے تک سو جائیں۔ 2: صبح 3 بجے اٹھیں۔ 3: تہجد 3:30am سے 4:15am تک 4: 20 منٹ تک قرآن کا مطالعہ کریں، کم از کم 10 آیات مع معنی کے ساتھ 4:15am سے 4:35am ، 10منٹ تک اپنی دعا کا مشاہدہ کریں، اپنی تمام خواہشات اللہ سے مانگیں۔ 5: صبح 4:45 بجے سے فجر تک سحری کھائیں۔ سحری کھانے کے بعد صلاۃ الصبح کی تیاری کریں۔ 6: نماز صلوۃ سبھی: @ مقررہ وقت پر 7: صبح کا اذکار صبح 6 بجے/6:30 بجے تک کریں۔ 8: صبح 7 بجے تک آرام کریں/دن کے لیے تیاری کریں۔ 9: صلوٰۃ الوداع، کم از کم 4 رکعتیں پڑھیں۔  صبح 9:00 بجے سے 11:30 بجے تک 10: قرآن کو مسلسل سنتے رہیں۔ 11: نماز ظہر مقررہ وقت پر ادا کریں۔  20 منٹ اذکار کریں۔ 12: عصر کی نماز مقررہ وقت پر ادا کریں اور 20 منٹ شام اذکار، اور قرآن کی تلاوت کریں۔ 13: غروب آفتاب کے وقت اپنا روزہ افطار کرو جس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔  لیکن افطار کرنے سے پہلے اللہ سے جو کچھ اور ہر چیز مانگو مانگو۔  نماز مغرب پڑھیں، آپ کی دعا رد نہیں ہوگی۔ 14: عشاء کی نماز دائیں طرف اور  تراویح رات 9 بجے تک پڑھیں۔ 15:...
 📝 آج کی میری پوسٹ بہت اہم ہے ہر مرد عورت کے لیے جو نیٹ استعمال کرتے ہیں۔۔! کسی بهی شادی شدہ مرد کا اور کسی شادی شدہ عورت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے جیون ساتهی کو دهوکا دیں بہت سے دین دار بهی اس بیماری میں مبتلا ہیں وہ اس بات کو عیب نہیں سمجهتے۔ آپ کی روز کی غیر محرم سے بات چیت (چاہے موبائل پر یو یا اسکائپ ،واٹس اپ یا فیسبك پر ) یہ بات آپ کو تباہی تک لے جائے گی کیونکہ بات شروع میں سلام سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں زنا تک لے جاتی ہے۔ مرد وعورت نیٹ چیٹ کے ذریعہ کیا کرتے ہیں اور انہیں اس سے بچائيں ، کیونکہ اس میں فتنے کا ثبوت ملتا ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے اور پھر اس کے بعد ملاقاتیں اورٹیلی فون کالیں وغیرہ بھی اور بعد میں کیا نہیں ہوتا ؟ اپنے ساتهی پر سب سے بڑا ظلم شوہر یا بیوی کا کہ کسی غیر محرم سے تعلقات استوار کر نا ہے۔ نکا ح کے بغیر کسی سے تعلقات قائم کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ بعض لوگ اپنے ضمیر کو مطمئن کر نے کے لئے یا غیر محرم سے تعلقات قائم کر نے کے اپنے قبیح فعل کی طرفداری میں جھو ٹے بہانے گھڑ لیتے ہیں ۔ مثلاً بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑ تی رہتی ہے۔ وہ کاہل اور سست الوجود ہے ۔ بن سنور...