دوسری قسط ۔۔!
🧕 عورت قیدی نہیں______
👈 آج کا عنوان :
اسلام نے عورت کو قیدی نہیں بنایا ۔۔۔؟؟؟؟
کچھ لوگوں کو عورتوں کا کچھ زیادہ ہی احساس نظر آتا ہے ان لوگوں کا سوائے تنقید کے کچھ مقصد نہیں ہوتا ہم نے اس موضوع پر کچھ کلام پیش کیا تھا آج مزید کچھ عرض لے کر حاضر ہوئے ہیں۔
اوپر جو بات بیان کی گئی اس کی صداقت اس بات سے بھی ہوسکتی ہے کہ تنقید کرنے والوں کے گھر میں خود عورتوں پر حد سے زیادہ ظلم و زیادتی کی جاتی ہے 'جو عورتوں کی آزادی کے دعوے دار ہیں' ان کو اپنی عورتوں کے بارے میں بڑی غیرت ہوتی ہے 'باقی دوسروں کی عورتوں کے لیے آزادی کا رونا روتے ہیں' پھر اگر اتنا ہی عورتوں کا احساس ہے تو فقط اسلام ہی پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟
'کیا دیگر مذاہب' عورتوں کے وہ حقوق جن کے یہ حضرات دعوے دار ہیں دیتے ہیں؟
'کیا کسی بھی مذہب میں' عورت کے بارے میں وہ عدل و انصاف نظر آتا ھے؟
جو دین اسلام نے عورتوں کو حق دیا ھے۔
فقط دین اسلام ہی وہ واحد مذہب ھے جس نے عورت کو پورا پورا حق دیا ھے۔ اسلام نے عورت کو قیدی نہیں بنایا بلکہ اسلام نے تو عورت کی حفاظت کی ھے عورت کے حقوق پر بات کی ھے۔
اسلام ہی نے بتایا ہے کہ
ماں کا حق کتنا ھے۔
بہن کا درجہ کیا ھے۔
بیوی کی قدر کیسے کی جاتی ھے۔
جس طرح شوہر کے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی حقوق ہیں۔
بیٹی کا مرتبہ کیا ھے۔
یہ فقط اسلام ہی کا اعزاز ھے۔
اب اگر کوئی شخص اسلام کی معلومات فرنگیوں سے حاصل کرتا ہے یا لوگوں کی بےعملی دیکھ کر اسلام پر تنقید کرتا ھے، تو اس کو اپنے ضمیر کو ملامت کرنی چاہیے اگر دین کو نہ ماننے والے یہ اعتراض کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دین سے بہت دور دینی معلومات سے محروم دین کے دشمن ہیں اس وجہ سے ایسی نازیبا جھالت پر مشتمل بات کر رہے ہیں *مگر جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں جب وہ غیروں کی باتوں میں آکر تنقید کریں تو ان پر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ انہوں کی اسلام کی تعلیمات کو نہیں سمجھا ھے بےعمل مسلمانوں کے کردار کو دیکھ کر اسلام پر تنقید کرنا عقلمندی نہیں۔
اس معاشرے میں کچھ نیک مسلمان بھی رہتے ہیں جن کا کردار لائق تحسین ھے آخر وہ کسی کو نظر کیوں نہیں آتے؟
مگر الجنس یمیل الی الجنس کی مثل وہی نظر آئے گا جو ہمارے مفاد کے موافق ہو۔
ایک جاننے والے نے مجھ سے چند اعتراضات کیے:
مجھے بہت حیرت ہوئی کہ یہ صاحب خود کو رہنماء سمجھنے والا بھی 'فرنگیوں کی باتوں میں آیا ہوا ھے' جس انسان کو اپنے مذہب دین اسلام میں شک ہو اس پر لازم ہے کہ 'سب سے پہلے اس شک و شبہ کو دور کرے' مگر حالت یہ ہے کہ ہمارے مسلمان کہلانے والے ان کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں 'جو دین اسلام کے دشمن ہیں'۔
کہتے ہیں جناب آپ مسلمانوں کو تو جواب دے سکتے ہیں مگر بےدین لوگ آپ کے دلائل کو نہیں مانیں گے ان کو عقلی جواب چاہیے۔
واہ رے عقل تیری حکومت جس کے سر میں دماغ نام کی کوئی چیز ہی نہیں وہ عقلی جواب چاہتا ہے نہ جانے کون سی ایسی مجبوری ہے جس کے سبب ہم ان کی بات سننا گوارا کرتے ہیں جن کو ہمارے دین سے نفرت ہے پھر فقط ان کو سنتے ہی نہیں بلکہ ان کی وکالت کرنا ہم پر لازم ہوتی ہے ان کی بات اتنی اہم ہوتی ہے کہ ہر کسی تک پہنچانا جیسے ہم پر لازم ہو۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہم ان کی سنتے ہی نہیں۔
اگر غلطی سے سن بھی لی تھی تو توجہ نہ دیتے توجہ بھی دی تھی تو اہمیت نہ دیتے۔
جو ہمارے دین کی بات کو اہم نہ سمجھے ہم بھلا اس کی بات کو اہم کیوں سمجھیں۔
پھر اگر اہم سمجھا ہی تھا تو اس کا حل یا جواب خود تلاش کرتے یا عوام میں شہرت دینے کی بجائے کسی ایسے سے بات کرتے جو ہم تک درست جواب ہہنچا کر ہم کو مطمن کر لیتا۔
مگر ایسا دماغ ایسے لوگوں کے سر میں نہیں ہوتا ۔
فالتو اعتراضات کا جواب دینا ہم پر لازم نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اتنا وقت ھے
مگر چونکہ ہم نے شکوک و شبہات میں ان حضرات کو مضطرب پایا ھے جب کا حق یہ تھا کہ وہ جواب دیتے مگر ان کی عقل فرنگیوں کے پاس ھے۔
اس لیے ایسے پڑھے لکھے مسلمانوں کے اضطراب کو ختم کرنے کے لیے ہم بھی کچھ عرض کرتے ہیں۔
اعتراض:
اسلام نے عورت کو قیدی بنا دیا ہے عورت مظلوم ہے اس کا حق فقط غلامی ہے یہ فقط قید کے اندر زندگی گزارنے کے لیے پیدا ہوئی ہے نہ تو طلاق کا حق رکھتی ہے کہ ظلم سے نجات پائے نہ گھر سے باہر نکل سکتی ہے مردوں کو سب اختیار ہے مردوں کے سارے حقوق ہیں عورتوں کے کیوں نہیں ؟
جواب:
مجھے لگتا ہے کہ اعتراض کرنے والے نے ابھی تک شادی نہیں کی 'ورنہ اس کی بیوی اس کو دکھا دیتی کہ عورت چیز کیا ہے ظالم ہے یا مظلوم خیر ہمارا کیا ہو سکتا ھے۔
اعتراض کرنے والے کی بیوی واقعی مجبور و مظلوم ہو۔
اگرچہ سوال ہم بھی کر سکتے ہیں کہ آپ کی بیگم صاحبہ اگر مجبور و مظلوم ہے تو کس کی وجہ سے اگر نہیں تو آپ کتنے سکھی ہیں۔
یہ تو ایک الزامی جواب تھا
شاید کے سر کے اندر دماغ نام کی کوئی چیز ہو سمجھ میں آ جائے ورنہ بیوی کے ستائے ہوئے کسی مرد کے پاس اس کے حالات زندگی سن کے سمجھ جائے۔
تحقیقی جواب یہ ہے کہ
اسلام نے عورت کو قیدی نہیں بنایا اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا ھے۔
عورت اسلام ہی کی وجہ سے شہزادی ھے جبکہ زبان کو قابو میں رکھتی ہو برداشت کا مادہ رکھتی ہو فسادی نہ ہو اگر عورت کو اپنی زبان درازی کی وجہ سے کچھ تکلیف آتی ہے تو اس میں عورت کا اپنا قصور ھے بچارے شوہر کا جرم نہیں نہ ہی اسلام کا کوئی قصور ھے۔
اسلام نے تو عورت کی عزت و عفت کے خاطر گھر میں رہنے کی تلقین کی ھے اسلام نے تو اس کو بہت سارے اختیارات دییے ہیں
اعتراض کرنے والے نے طلاق کی مثال دی ھے چلیں اسی کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں
اگر عورت کو طلاق کا اختیار ہوتا تو جس طرح روٹ کر آئے دن میکے چلی جاتی ھے اسی طرح روز طلاق دے کر اپنا گھر تباہ کرتی آخر کتنے گھر بساتی بلکہ کتنے گھر تباہ کرتی
اس معاملے میں جتنی برداشت مرد کو ہوتی ہے وہ عورت کو کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔
پھر اگر بات انصاف و برابری کی ہے تو عورت کو طلاق کا حق نہ دینا ہی عدل و انصاف و برابری ھے
آپ سوال کرسکتے ہیں وہ کیسے؟
کیونکہ آپ نے اسلام کے مزاج کو سمجھا ہی نہیں جناب
نکاح کا اختیار اسلام نے عورت کو دیا ہے اور طلاق کا اختیار مرد کو
عورت کی مرضی ہے جس کو چاہے اپنی زندگی کا ہمسفر بنائے جتنا چاہے مہر مقرر کرے۔
جب اپنی زندگی کا ہمسفر بنا لیا ماہر مقرر کر کے خود کو کسی کے حوالے کر دیا اب اس کی رضا پر اس کا اختیار ختم ہوا
مرد کو برابری کا اختیار دیا گیا کہ جو چیز لی ہے اس کو اپنے پاس رکھے اور پھر اس کے حقوق کا بھی خیال رکھے جب حد سے کراس کرے تو اس کو سمجھائے اگر آپس میں نااتفاقی ہو تو دونوں کے بڑے آپس میں بیٹھ کر صلح کرائیں جب طلاق دینی ہی پڑے تو ایک دے اگر بہتری دیکھیں تو رجوع کر لیں ورنہ کچھ مدت کے بعد دوسری طلاق دے اگر بہتری دیکھیں تو رجوع کر لیں ورنہ پھر جدائی کا پختہ ارادہ کرتے ہوئے تیسری طلاق بھی دے دے
میں نہیں سمجھتا کہ اس انداز کو کوئی ظلم و جبر سمجھتا ہو۔
اگر کوئی اپنی بیوی سے نازیبا سلوک کرتا ہے تو وہ اس کا اپنا ذہن ھے
دین اسلام کا طریقہ طلاق ہم نے عرض کر دیا دین اسلام کے مزاج کو سمجھنے والا بخوبی جانتا ہے کہ مرد و عورت کے حقوق برابر ہیں مگر جس برابری سے عورت ذات کی عزت و عفت پہ حرف آتا ھے اس کی پزیرائی کبھی بھی دین اسلام نہیں کر سکتا دین اسلام تو انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے ھے دین اسلام تو انسانی بقا کا خواں ہے دین اسلام تو انسانی ترقی کا راز ھے۔
Comments
Post a Comment
آپ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ ایسا کوئی برا کمنٹس نہ کریں جس سے لوگوں یا مسلمانوں کو تکلیف ہو شکریہ
We ask all your friends not to make any bad comments that will hurt people or Muslims. Thank you